Skip to main content

شوہروں کے لئیے تحفہ

*🏖شوہروں کے لئیے تحفہ🏖*

*امام احمد ابن حنبل رح کی اپنے بیٹے کو خوشگوار ازدواجی زندگی کیلئے ۱۰ قیمتی نصیحتیں*

امام احمد ابن حنبل رح نے اپنے صاحب زادے کو شادی کی رات ۱۰ نصیحتیں فرمائیں

ہر شادی شدہ مرد کو چاہیئے کہ انکو غور سے پڑھے اور اپنی زندگی میں عملی طور پر اختیار کرے

*میرے بیٹے، تم گھر کا سکون حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنی بیوی کے معاملے میں ان ۱۰ عادتوں کو نہ اپناؤ*

لہذا ان کو غور سے سنو اور عمل کا ارادہ کرو

*پہلی دو* تو یہ کہ عورتیں تمھاری توجہ چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ تم ان سے واضح الفاظ میں محبت کا اظہار کرتے رہو

لہذا وقتاً فوقتاً اپنی بیوی کو اپنی محبت کا احساس دلاتے رہو اور واضح الفاظ میں اسکو بتاؤ کہ وہ تمہارے لئے کس قدر اہم اور محبوب ہے
(اس گمان میں نہ رہو کہ وہ خود سمجھ جائے گی، رشتوں کو اظہار کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے)

یاد رکھو اگر تم نے اس اظہار میں کنجوسی سے کام لیا تو تم دونوں کے درمیان ایک تلخ دراڑ آجائے گی جو وقت کے ساتھ بڑھتی رہے گی اور محبت کو ختم کردے گی
۳- عورتوں کو سخت مزاج اور ضرورت سے زیادہ محتاط مردوں سے کوفت ہوتی ہے

لیکن وہ نرم مزاج مرد کی نرمی کا بےجا فائدہ اٹھانا بھی جانتی ہیں

لہذا ان دونوں صفات میں اعتدال سے کام لینا تاکہ گھر میں توازن قائم رہے اور تم دونوں کو ذہنی سکون حاصل ہو

۴- عورتیں اپنے شوہر سے وہی توقع رکھتی ہیں جو شوہر اپنی بیوی سے رکھتا ہے

یعنی عزت، محبت بھری باتیں، ظاہری جمال، صاف ستھرا لباس اور خوشبودار جسم

لہذا ہمیشہ اسکا خیال رکھنا

۵- یاد رکھو گھر کی چار دیواری عورت کی سلطنت ہے، جب وہ وہاں ہوتی ہے تو گویا اپنی مملکت کے تخت پر بیٹھی ہوتی ہے

اسکی اس سلطنت میں بےجا مداخلت ہرگز نہ کرنا اور اسکا تخت چھیننے کی کوشش نہ کرنا

جس حد تک ممکن ہو گھر کے معاملات اسکے سپرد کرنا اور اس میں تصرف کی اسکو آزادی دینا

۵- ہر بیوی اپنے شوہر سے محبت کرنا چاہتی ہے لیکن یاد رکھو اسکے اپنے ماں باپ بہن بھائی اور دیگر گھر والے بھی ہیں جن سے وہ لاتعلق نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس سے ایسی توقع جائز ہے

لہذا کبھی بھی اپنے اور اسکے گھر والوں کے درمیان مقابلے کی صورت پیدا نہ ہونے دینا کیونکہ اگر اسنے مجبوراً تمہاری خاطر اپنے گھر والوں کو چھوڑ بھی دیا تب بھی وہ بےچین رہے گی اور یہ بےچینی بالآخر تم سے اسے دور کردے گی

۷- بلاشبہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور اسی میں اسکا حسن بھی ہے

یہ ہرگز کوئی نقص نہیں، وہ ایسے ہی اچھی لگتی ہے جس طرح بھنویں گولائی میں خوبصورت معلوم ہوتی ہیں

لہذا اسکے ٹیڑھپن سے فائدہ اٹھاؤ اور اسکے اس حسن سے لطف اندوز ہو

اگر کبھی اسکی کوئی بات ناگوار بھی لگے تو اسکے ساتھ سختی اور تلخی سے اسکو سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ وہ ٹوٹ جائے گی، اور اسکا ٹوٹنا بالآخر طلاق تک نوبت لے جائے گا

مگر اسکے ساتھ ساتھ ایسا بھی نہ کرنا کہ اسکی ہر غلط اور بےجا بات مانتے ہی چلے جاؤ ورنہ وہ مغرور ہو جائے گی جو اسکے اپنے ہی لئے نقصان دہ ہے

لہذا معتدل مزاج رہنا اور حکمت سے معاملات کو چلانا

۸- شوہر کی ناقدری اور ناشکری اکثر عورتوں کی فطرت میں ہوتی ہے

اگر ساری عمر بھی اس پر نوازشیں کرتے رہو لیکن کبھی کوئی کمی رہ گئی تو وہ یہی کہے گی تم نے میری کونسی بات سنی ہے آج تک

لہذا اسکی اس فطرت سے زیادہ پریشان مت ہونا اور نہ ہی اسکی وجہ سے اس سے محبت میں کمی کرنا

یہ ایک چھوٹا سا عیب ہے اس کے اندر

لیکن اسکے مقابلے میں اسکے اندر بے شمار خوبیاں بھی ہیں

بس تم ان پر نظر رکھنا اور اللہ کی بندی سمجھ کر اس سے محبت کرتے رہنا اور حقوق ادا کرتے رہنا

۹- ہر عورت پر جسمانی کمزوری کے کچھ ایام آتے ہیں۔ ان ایام میں اللہ تعالٰی نے بھی اسکو عبادات میں چھوٹ دی ہے، اسکی نمازیں معاف کردی ہیں اور اسکو روزوں میں اس وقت تک تاخیر کی اجازت دی ہے جب تک وہ دوبارہ صحتیاب نہ ہو جائے

*بس ان ایام میں تم اسکے ساتھ ویسے ہی مہربان رہنا جیسے اللہ تعالٰی نے اس پر مہربانی کی ہے*

*جس طرح اللہ نے اس پر سے عبادات ہٹالیں ویسے ہی تم بھی ان ایام میں اسکی کمزوری کا لحاظ رکھتے ہوئے اسکی ذمہ داریوں میں کمی کردو، اسکے کام کاج میں مدد کرادو اور اس کے لئے سہولت پیدا کرو*

۱۰- *آخر میں بس یہ یاد رکھو کہ تمہاری بیوی تمہارے پاس ایک قیدی ہے جسکے بارے میں اللہ تعالٰی تم سے سوال کرے گا۔ بس اسکے ساتھ انتہائی رحم و کرم کا معاملہ کرنا*

جزاک اللہ خیرا کثیرا

Comments

Popular posts from this blog

محبت کے سجدے

*محبت کے سجدے* وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے  سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں  پہ سجدے چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے وہ جنگ و جدل میں حراست میں سجدے لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے غموں کے مقابل عطردار سجدے نجات اور بخشش کے سالار سجدے جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟ زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں ؟ ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے خیالوں  میں الجھے ہوے چار سجدے مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے چمکتی دیواروں میں لاچار  سجدے ریا کار سجدے ہیں نادار سجدے ہیں،  بے نور، بے ذوق مردار سجدے سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے...

آخر ھم اپنے حق میں کب آواز اُٹھائیں گے؟

سوال تو بنتا ہے۔ ہر پاکستانی کا اپنی اپنی سیاسی پارٹی سےجنکےلیےلڑ مرنےکو بھی تیار ہو جاتےجنکےممبران اپنی پارٹی پرہلکی سی تنقید پر بھی منہ توڑ جواب دینا فرض سمجھتے ھیں۔ آج عالمی برادری کے سامنے ملک و قوم کو نیچا دکھانے کی بھرپورکوششیں کی جارہی ھیں تو ان کے منہ سے ٹرمپ کی بکواس کا جواب کیوں نہیں آرھا؟ Ask for Pakistan

پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی

٭ پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی ٭ مجھے یاد آئی مولانا نور محمد کی کہانی سے ------------------------------ ہمارے محلے میں ایک پروفیسر تھے ساری زندگی یونیورسٹی وکالج میں گزری  ایک شاگردہ سے کورٹ میرج کی ( کہا کرتے تھے کہ وقت پر پٹا لی تھی ) ایک ہی یونیورسٹی میں آخری عمر گزاری  میں جب مدرسہ میں پڑھ رہا تھا تو پروفیسر صاحب ارذل عمر میں تھے جب دیکھنے سننے کے قابل نہیں رہے تو کالج سے ریٹائر ہوگئے سرکاری مکان بھی واپس لینے میں سرکار نے دیر نہیں لگائی  وہ میرے محلے ہی میں آگئے جہاں انکے بچے ان سے الگ رہتے تھے اور انکے بھتیجے جوائینٹ فیملی میں رہتے تھے آبائی گھر میں فقہاء کے نام سے بہت چڑتے تھے لیکن جب کبھی فقہاء کی دوررسی قانون کو انکے سامنے نام لئے بنا بیان کیا جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ ہے انسانی شعور کی انتہاء لیکن جب بتایا جاتا کہ یہ امام سرخسی کا قول ہے تو بہت جز بز ہوتے اور کہتے کہ انکو کیا پتہ دین کی سمجھ تو صرف غامدی صاحب کو آئی ہے 1400 سالوں میں بہرحال کل میرا ایک فوتگی پر جانے کا اتفاق ہوا … اور مجھے پروفیسر صاحب بہت یاد آئے …. پروفیسر صاحب  شدید تر...