Skip to main content

کدی دولت نال نہ پرکھ کریں

کدی دولت نال نہ پرکھ کریں.
ماڑے مخلص ڈھول وی ھوندن.

زندگی دی اوکھیاں گھڑیاں وچi
سجناں  دے تول وی ھوندن. 

دو کوڈیاں تے کئی  وِک ویندن.
کئی سجن  انمول وی ھوندن. 

یاراں نال ساقی گل بن دی اے

 پیسے کنجراں کول وی ھوندن..

Comments

Popular posts from this blog

محبت کے سجدے

*محبت کے سجدے* وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے  سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں  پہ سجدے چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے وہ جنگ و جدل میں حراست میں سجدے لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے غموں کے مقابل عطردار سجدے نجات اور بخشش کے سالار سجدے جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟ زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں ؟ ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے خیالوں  میں الجھے ہوے چار سجدے مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے چمکتی دیواروں میں لاچار  سجدے ریا کار سجدے ہیں نادار سجدے ہیں،  بے نور، بے ذوق مردار سجدے سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے...

آخر ھم اپنے حق میں کب آواز اُٹھائیں گے؟

سوال تو بنتا ہے۔ ہر پاکستانی کا اپنی اپنی سیاسی پارٹی سےجنکےلیےلڑ مرنےکو بھی تیار ہو جاتےجنکےممبران اپنی پارٹی پرہلکی سی تنقید پر بھی منہ توڑ جواب دینا فرض سمجھتے ھیں۔ آج عالمی برادری کے سامنے ملک و قوم کو نیچا دکھانے کی بھرپورکوششیں کی جارہی ھیں تو ان کے منہ سے ٹرمپ کی بکواس کا جواب کیوں نہیں آرھا؟ Ask for Pakistan

پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی

٭ پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی ٭ مجھے یاد آئی مولانا نور محمد کی کہانی سے ------------------------------ ہمارے محلے میں ایک پروفیسر تھے ساری زندگی یونیورسٹی وکالج میں گزری  ایک شاگردہ سے کورٹ میرج کی ( کہا کرتے تھے کہ وقت پر پٹا لی تھی ) ایک ہی یونیورسٹی میں آخری عمر گزاری  میں جب مدرسہ میں پڑھ رہا تھا تو پروفیسر صاحب ارذل عمر میں تھے جب دیکھنے سننے کے قابل نہیں رہے تو کالج سے ریٹائر ہوگئے سرکاری مکان بھی واپس لینے میں سرکار نے دیر نہیں لگائی  وہ میرے محلے ہی میں آگئے جہاں انکے بچے ان سے الگ رہتے تھے اور انکے بھتیجے جوائینٹ فیملی میں رہتے تھے آبائی گھر میں فقہاء کے نام سے بہت چڑتے تھے لیکن جب کبھی فقہاء کی دوررسی قانون کو انکے سامنے نام لئے بنا بیان کیا جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ ہے انسانی شعور کی انتہاء لیکن جب بتایا جاتا کہ یہ امام سرخسی کا قول ہے تو بہت جز بز ہوتے اور کہتے کہ انکو کیا پتہ دین کی سمجھ تو صرف غامدی صاحب کو آئی ہے 1400 سالوں میں بہرحال کل میرا ایک فوتگی پر جانے کا اتفاق ہوا … اور مجھے پروفیسر صاحب بہت یاد آئے …. پروفیسر صاحب  شدید تر...