Skip to main content

Posts

Showing posts from 2018

اللہ رازق

پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، جن کا مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب روزانہ صبح مطب جانے سے قبل بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔ ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا ساما

محبت کے سجدے

*محبت کے سجدے* وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے  سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں  پہ سجدے چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے وہ جنگ و جدل میں حراست میں سجدے لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے غموں کے مقابل عطردار سجدے نجات اور بخشش کے سالار سجدے جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟ زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں ؟ ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے خیالوں  میں الجھے ہوے چار سجدے مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے چمکتی دیواروں میں لاچار  سجدے ریا کار سجدے ہیں نادار سجدے ہیں،  بے نور، بے ذوق مردار سجدے سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے ہیں مفرور سجدے ہی

اظہار الحق صاحب کی ایک خوبصورت تحریر ) جسے پڑھتے پڑھتے خود اپنا سانس رکنے لگنا ہے

( اظہار الحق صاحب کی ایک خوبصورت تحریر ) جسے پڑھتے پڑھتے خود اپنا سانس رکنے لگنا ہے ☹️  سرما کی ایک یخ زدہ  ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات  ہوئی۔ اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح  ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی ۔ڈاکٹر نے دوائیں  تبدیل کیں  مگر خلافِ معمول خاموش رہا۔ مجھ سے کوئی بات کی نہ میری بیوی سے۔ بس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں کو دیکھتا رہا۔ دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں  دونوں یونیسف کے سروےکے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔ لاہور والی بیٹی کو بھی میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف  ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔ رہے  دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں‚  انہیں  پریشان کرنے کی کوئی تُک  نہ تھی- یوں  صرف میں اور بیوی ہی گھر پر تھے اور ایک ملازم  جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا  جاتا تھا۔ عصر ڈھلنے لگی تو مجھے  محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہورہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی  بیوی کو پاس  بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں

اُمت سو رہی ہے۔

اُمت سو رہی ہے۔ 

پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی

٭ پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی ٭ مجھے یاد آئی مولانا نور محمد کی کہانی سے ------------------------------ ہمارے محلے میں ایک پروفیسر تھے ساری زندگی یونیورسٹی وکالج میں گزری  ایک شاگردہ سے کورٹ میرج کی ( کہا کرتے تھے کہ وقت پر پٹا لی تھی ) ایک ہی یونیورسٹی میں آخری عمر گزاری  میں جب مدرسہ میں پڑھ رہا تھا تو پروفیسر صاحب ارذل عمر میں تھے جب دیکھنے سننے کے قابل نہیں رہے تو کالج سے ریٹائر ہوگئے سرکاری مکان بھی واپس لینے میں سرکار نے دیر نہیں لگائی  وہ میرے محلے ہی میں آگئے جہاں انکے بچے ان سے الگ رہتے تھے اور انکے بھتیجے جوائینٹ فیملی میں رہتے تھے آبائی گھر میں فقہاء کے نام سے بہت چڑتے تھے لیکن جب کبھی فقہاء کی دوررسی قانون کو انکے سامنے نام لئے بنا بیان کیا جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ ہے انسانی شعور کی انتہاء لیکن جب بتایا جاتا کہ یہ امام سرخسی کا قول ہے تو بہت جز بز ہوتے اور کہتے کہ انکو کیا پتہ دین کی سمجھ تو صرف غامدی صاحب کو آئی ہے 1400 سالوں میں بہرحال کل میرا ایک فوتگی پر جانے کا اتفاق ہوا … اور مجھے پروفیسر صاحب بہت یاد آئے …. پروفیسر صاحب  شدید ترین سردیوں میں نہ جا