Skip to main content

پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی

٭ پروفیسر فرنود ہاشم کی کہانی ٭
مجھے یاد آئی مولانا نور محمد کی کہانی سے
------------------------------
ہمارے محلے میں ایک پروفیسر تھے ساری زندگی یونیورسٹی وکالج میں گزری  ایک شاگردہ سے کورٹ میرج کی ( کہا کرتے تھے کہ وقت پر پٹا لی تھی ) ایک ہی یونیورسٹی میں آخری عمر گزاری  میں جب مدرسہ میں پڑھ رہا تھا تو پروفیسر صاحب ارذل عمر میں تھے جب دیکھنے سننے کے قابل نہیں رہے تو کالج سے ریٹائر ہوگئے سرکاری مکان بھی واپس لینے میں سرکار نے دیر نہیں لگائی  وہ میرے محلے ہی میں آگئے جہاں انکے بچے ان سے الگ رہتے تھے اور انکے بھتیجے جوائینٹ فیملی میں رہتے تھے آبائی گھر میں
فقہاء کے نام سے بہت چڑتے تھے لیکن جب کبھی فقہاء کی دوررسی قانون کو انکے سامنے نام لئے بنا بیان کیا جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ ہے انسانی شعور کی انتہاء لیکن جب بتایا جاتا کہ یہ امام سرخسی کا قول ہے تو بہت جز بز ہوتے اور کہتے کہ انکو کیا پتہ دین کی سمجھ تو صرف غامدی صاحب کو آئی ہے 1400 سالوں میں
بہرحال کل میرا ایک فوتگی پر جانے کا اتفاق ہوا … اور مجھے پروفیسر صاحب بہت یاد آئے …. پروفیسر صاحب  شدید ترین سردیوں میں نہ جانے رات کے کتنے بجے فوت ہوئے،  بچوں کی تربیت انہوں نے بہت روشن خیالی سے کررکھی تھی تو وہ باپ کو اپنے پاس رکھنے کے روادار نہیں تھے کیونکہ اسطرح انکے اباجی کے مطابق یہ انکی پرائیویسی میں مداخلت تھی اور پروفیسر صاحب نے بھی اپنے  سادہ دیہاتی اباجی کو آشرم میں بھیج دیا تھا  بچوں نے جو والد سے سیکھا وہی دہرایا  تو ایسے میں انکے بھتیجوں نے انکو اپنے ہاں رکھ لیا تھا کیونکہ یہ بھتیجے پرانے خیالات کے مطابق تھے وہ ماڈرن بلکل بھی نہیں تھے ۔
لیکن اس رات پروفیسر نے ضد کی کہ بیٹے سے ملنے کو دل کررہا ہے پوتوں کو دیکھے عرصہ بیت گیا گیا تو بیٹے کے گھر چلے گئے لیکن بیٹے کو رات کسی میٹنگ میں جانا تھا اور بہو ایک سوشل پارٹی میں انگیج تھیں پوتوں نے بھی ایک بیچ سرمنی تشکیل دے رکھی تھی اور پوتیوں کو بھی اپنے بوائے فرینڈز کیساتھ لانگ ڈرائیو پرجانا تھا  اور چوکیدار کی بیوی بیمار تھی وہ چھٹی پر تھا شومئی قسمت کے پروفیسر صاحب جا پہنچے تو بیٹے نے شکر کیا تھینکس گاڈ کہا اور چوکیدار کے کیبن کی چابی دے کر کہا کہ ڈیڈ ہم تو سب جارہے آپ یہیں سوجانا لیکن خیال رکھنا اور ہاں وہ  بیڈ روم میں ہمارا ٹونی کتا سو رہا ہے اسے ڈسٹرب نہ کرنا کھانسنا ذرا آرام سے  ۔
رات کو سردی کافی تھی تو پروفیسر صاحب فوت ہوگئے  صبح جب فیملی واپس آئی تو سو گئے دن کو جب جاگے دیکھا تو باہر سے سمیل آرہی ہے انکو یاد آیا کہ ڈیڈی آئے تھے جاکر دیکھا تو پروفیسر صاحب  الٹیوں اور پیچس میں لت پت اوندھے منہ  پڑے ہوئے تھے  انہوں نے پروفیسر صاحب کے بھتیجوں کو فون کرکے بلالیا
جب وہ پہنچے تو انہوں نے انہیں فوت پایا، میں ان کو غسل دینے میں شامل تھا، مجھے یاد ہے کہ ان کا پورا وجود اکڑ چکا تھا …وجود ٹیڑھا میڑھا ہوا پڑا تھا اور باوجود کوشش کے سیدھا کرنا ممکن نہ تھا ….
اپنی وفات سے محض ایک دن پہلے اچانک ایک دن وہ مسجد میں آگئے  میں بہت حیران ہوا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ جو نمازیوں مولویوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا آج اپنے اللہ سے صلح کرنے آہی گیا  میں انکے قریب ہوا اور کہا چچاجان خوش آمدید میں سلام کرکے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے ….. تقاضا کرتے ہوئے  کہا مجھے یاد ھے انکی آنکھوں میں آنسو تھے ….. مجھ سے بولے تنہائی مار گئی ہے میراحال دل تو سن لو کوئی نہیں سنتا اولاد کی تربیت جس نہج پر کی ہے اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہوں پھر وہ بچوں کی طرح رو دیئے ….کمزوری کا یہ حال تھا کہ ان میں اتنی سکت نہ تھی کہ اپنے آنسو خود ہی پونچھ سکیں ….میں اس وقت انکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر ہمہ تن گوش بنا ہوا  تھاایک مولوی کی اپنائیت کا یہ انداز دیکھ کر  کر وہ پھر رو دیئے؛ اور کہا مولوی صاحب آپ مولوی ہو لوگوں کو میری کہانی سنانا اپنے بچوں کی دینی تربیت ضرور کریں انکو اپنی تہذیب کے ساتھ جوڑیں یہ مغربی تہذیب جو ہے نا یہ بس کمانے کی مشین بناتی ہے اس نے انسان سے رشتے ناطے تعلقات جذبات سب چھین لئے ہیں ….یہ اس شخص کے الفاظ تھے جس نے ساری زندگی ہر ملاقات میں مجھ سے یہی فرمایا تھا “ کہ مولوی تم ترقی کے خلاف ہو اس وقت مغربی تہذیب انسانیت کی معراج ہے نکمو !! تم بس بیٹھ کر لوگوں کو پرانے زمانے کی باتیں پڑھاتے رہتے ہو انہیں 1400 سال پہلے کی باتیں بتاتے رہتے ہو گرو اپ اٹھو دیکھو یہ مذہب کا طوق اتارو لبرل بنو دیکھو دنیا کتنی خوبصورت ہے بچوں کو روشن خیال بناو
وہ مغربی تہذیب کی نقالی ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے اور لگژری لائف کا حصول ہی انکے نزدیک کامیابی کا معیار تھا  مشرقی روایات انکے ہاں ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا تھا
وہ اپنے بڑھاپے میں کہا کرتے تھے کہ یہ گندی تہذیب سرمائے ہی کو سب کچھ سمجھتی ہے انکے ہاں انسان کی قدر نہیں بس سرمایہ ہی انکے ہاں سب کچھ ہے
 جب تک وہ سرمایہ کماتے رہے بناتے رہے تو وہ معزز تھے لیکن جب وہ ریٹائر ہوگئے تو بیکار ہوگئے …اب وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ لوگوں کو 1400 سال پرانے زمانے سے جوڑو کہ انسانیت کی معراج وہی دور تھا اب تو انسان دل کا لوتھڑا نہیں اے ٹی ایم مشین بن گیا ہے

ازحد کسمپرسی اور غربت بے بسی تنہائی بیماری کی موت مرے تو  آرٹ کونسل میں انکی تعزیتی ریفرنس ہوئی انکی یاد میں چند منٹ خاموشی کی گئی اور چند آنٹیوں نے موم بتیاں جلائیں اور چند قلم کاروں نے انکی موت کو انسانیت کی موت قرار دیا  ….. ایک شخص جو بھوک و غربت سے لاوارث کی طرح مر گیا، اسے بعد از مرگ ایوارڈ دئے گئے ….. میں نے اس وقت بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ یہاں منافقت کا بسیرا ھے ….
نوفل ربانی

Comments

Popular posts from this blog

محبت کے سجدے

*محبت کے سجدے* وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے  سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں  پہ سجدے چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے وہ جنگ و جدل میں حراست میں سجدے لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے غموں کے مقابل عطردار سجدے نجات اور بخشش کے سالار سجدے جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟ زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں ؟ ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے خیالوں  میں الجھے ہوے چار سجدے مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے چمکتی دیواروں میں لاچار  سجدے ریا کار سجدے ہیں نادار سجدے ہیں،  بے نور، بے ذوق مردار سجدے سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے ہیں مفرور سجدے ہی

ﮐﯿﺎ ﯾﮧﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟؟؟

ﺍﯾﮏ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼﺳﮩﯿﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ؟؟؟ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽﻧﮩﯿﮟ!!!! ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟؟؟ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ؟؟؟ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺯﮨﺮﯾﻼ ﺑﻢ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﻭﮦ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﻭ ﭘﯿﭽﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﺑﻨﯽ!!!! ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮﺑﻌﺪ ﻇﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﺎﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍﭘﺎﯾﺎ، ﭘﮭﺮﺩﻭﻧﻮﮞﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮﺍﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻟﻌﻨﺖ ﺑﮭﯿﺠﯽ ﻣﺎﺭﭘﯿﭧ ﮨﻮﺋﯽﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﺩﮮﺩﯼ!!!! ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺮﺍﺑﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ؟؟؟ ﺍﺱ ﻓﻀﻮﻝ ﺟﻤﻠﮯ ﺳﮯﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﯿﺎﺩﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺋﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ!!!! اسی طرح زید نے حامد سے پوچھا!! تم کہاں کام کرتے ہو؟؟ حامد : فلاں دکان میں!! ماہانہ کتنی تنخواہ دیتاہے؟؟ حامد:18000 روپے!! زید: 18000 روپے بس،تمہاری زندگی کیسے کٹتی ہے اتنے پیسوں میں؟؟ حامد ۔گہری سانس کھینچتے ہوئے ۔ بس یار کیا بتاوں!! میٹنگ ختم ہوئی!! کچھ دنوں کے بعد حامد اب اپنے کام سے بیزار ہوگیا ، اور تنخواہ بڑھانے کی ڈیمانڈ کردی، جسے مالک نے رد کردیا، نوجوان نے جاب چھ

وقت کی رفتار. یادگار تحریر

میرے دادا جان کی یادگار تحریر میرے مرحوم چچا جان ظہیر منظر (اللہ ان کی روح کو سکون دے آمین) کی پیدائش کے موقع پر میرے محترم دادا جان خداداد خان صاحب کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے قلم کے الفاظ۔